وسیمؔ بریلوی تعارف

نام زاہد حسن اور تخلص وسیم ہے۔ ۸ فروری ۱۹۴۰ء کو بریلی (یوپی) بھارت میں پیدا ہوئے۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔ ابتدائی درجات سے ایم اے تک انہوں نے امتیازی پوزیشن حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا پھر بریلی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے روہیل کھنڈ یونیورسٹی میں ڈین آف فیکلٹی آرٹس ہونے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ بھارت میں پروفیسر وسیم بریلوی کے فن اور شخصیت پر ڈاکٹر جاوید نسیمی نے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وسیم بریلوی کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۵۹ء سے ہوا۔ جب انہوں نے باقاعدہ شاعری شروع کی تو سب سے پہلے اپنے والد صاحب کو غزلیں دکھائیں۔ بعد میں منتقم حیدری صاحب سے باقاعدہ اصلاح لی۔ ان کا ترنم بہت اچھا ہے اور یہ مشاعرے کے کامیاب شاعر ہیں۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں۔ ’’تبسم غم‘‘، ’’آنسو میرے دامن میں‘‘ (شعری مجموعہ۔ دیونا گری رسم الخط میں)، ’’مزاج‘‘، ’’آنسو آنکھ ہوئی‘‘، ’’پھر کیا ہوا‘‘ (مجموعہ کلام)۔ ’’مزاج‘‘ پر اردو اکیڈمی لکھنؤ کا اعلی تحقیقی ایوارڈ ملا۔ میرا کادمی کی جانب سے ’’امتیاز میر‘‘ ملا۔ ان کے علاوہ انھیں اورکئی ایوارڈ اور اعزازات عطا کیے گئے۔
وسیم بریلوی کی غزل میں تہذیب یافتہ نرمیاں ہیں۔ اُن کے ہاں عشق کی وارفتگی نہیں جو غالبؔ کے ہم عصر مومن خان مومنؔ اور اُن کے بعد حسرت موہانی کے حصّے میں آئی۔ وہ اپنی لحنِ آہن گداز کے باوجود متقی، پاک باز وپرہیزگار مشہور ہیں۔ حسرتؔ کی محبوبۂ ناز آفریں تو تپتی دوپہر میں ننگے پائوں کوٹھے تک آکر رہ گئی‘ مومنؔ اپنی ناطورۂ ناز آفریں‘ اْمۃ الفاطمہ (صاحبہ) کے عشق میں ایسے از خود رفتہ اور بے باک ہوئے کہ دلّی (جس کے گلی کوچے اوراقِ مصوّر تھے) سے دیوانہ وار خاک چھانتے سہسوان (بدایوں) تک پہنچ گئے۔ کامیابی مقدّر میں نہیں تھی اس لیے بہ حال تباہ دلّی لوٹ آئے‘ وسیم بریلوی احتیاطِ وضع کے قائل ہیں۔ پاسبان ِعقل دل کے ساتھ رکھتے ہیں‘ تنہا چھوڑنے پر بھی آمادہ و مجبور نظر نہیں آتے۔ لیے دیے اور کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں۔ حسرتؔ کے ہاں نیرنگیِٔ تن کی جلوہ سامانی ہے‘ وسیم بریلوی ایسی شوخی سے اپنی مینائے غزل کو چھلکنے نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود تغزّل کے کیف و کم کو برقرار رکھتے ہیں‘ کچھ الفاظ کے در و بست سے‘ کچھ آہنگ و صوت سے اور کچھ اپنے والہانہ ترنّم کے زور پہ۔ دو شعر ملاحظہ ہوں؎
جو مجھ میں تجھ میں چلا آرہا ہے برسوں سے
کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو
سب کے ہونٹوں پہ تبسّم تھا مرے قتل کے بعد
جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا
اس سے قطع نظر‘ وسیم بریلوی کی شاعری کے کئی سَمن اور گلاب سے پہلو ہیں۔ وہ صرف رومان و حقیقت کے شاعر نہیں انہیں کربِ آگہی بھی بے چین کیے رکھتی ہے۔ چند شعر دیکھیے: مرے بچوں کے آنسو پونچھ دینا لفافے کا ٹکٹ جاری نہ کرنا……
اک ذرا سی انا کے لیے عمر بھر
تم بھی تنہا رہے میں بھی تنہا رہا
٭…٭…٭