طاہرؔ فراز تعارف

رکھتے ہیں غزل کہنے کا ہنر کرتے ہیں سفر جو شام و سحر
وہ اہل نظر نامی شاعر اک شب کی خبر بن جاتے ہیں

مشاعروں کی دنیا کے مشہور شاعر طاہر فراز کا یہ شعر حقیقی تاثر کے باوجود خود ان کے حوالے سے غیر حقیقی ہے اس لیے کہ خود طاہر فراز غزل کا ہنر جاننے، شام و سحر سفر کرنے اورنامی شاعر ہونے کے باوجود ’’خبریک شب‘‘ نہیں بلکہ برسہا برس سے نہ صرف خبروں میں ہیں بلکہ مشاعروں کے لاکھوں سامعین اور شاعری کے ہزاروں قدر دانوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ان کی یہ مقبولیت مشاعروں کی واہ واہ، ترنم کی برکت اور مشاعرے میں اچھی پرفارمینس کی ہی مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ ان کی وہ اچھی سچی شاعری بھی ہے جس نے انہیں عوام کے ساتھ ساتھ خواص میں بھی توجہ کے لائق بنا دیا ہے۔ جن لوگوں نے ان کے مجموعہ کلام ’’کشکول‘‘ (مطبوعہ2004، استعارہ پبلیکیشنز) کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ طاہر فراز مشاعروں کے عام تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی شاعری کے معیار پر بھی کھڑے اترتے ہیں۔

میری نظر میں ایسی زمینیں بھی ہیں فراز
جن کی طرف کوئی بھی سخنور نہیں گیا

’’کشکول‘‘ طاہرفراز کا غالباً اکلوتا مجموعہ کلام ہے جو مختصر ہونے کے ساتھ جامع بھی ہے۔ منفرد شاعر اور ناول نگار صلاح الدین پرویز نے لکھا ہے۔
’’مشاعروں سے بنیادی شغف اور انہماک کی وجہ سے طاہرفراز کی شاعری کو کچھ نئی جہتیں بھی میسر ہیں وہ عوامی جہتیں جن کا شعور تو شاعروں کو ہوتا ہے مگر اظہار کی سطح پر اس شعور کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ طاہرفراز نے عوامی سائیکی، نفسیات، ان کی ترجیحات ان کے ذہنی تقاضوں مسائل و متعلقات کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کی ہے اوران کے معصوم بے ضرر جذبات و احساسات کو اپنی شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ وہ تجربات و حوادث جو صحیح معنوں میں سیاحت سے ہی میسر آتے ہیں طاہر فراز نے انہی تجربات وحوادث کواظہار زبان عطاکی ہے۔‘‘

سچے اور اچھے شاعر کے لیے مشاعرے کا پیشہ کچھ معاملوں میں کتنا ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عوامی ربط و ضبط اورزندگی کے مختلف تجربوں سے جو فائدہ پہنچتا ہے اس سے شاعر سننے والوں کی نبض (کبھی کبھی پڑھنے والوں کی بھی) پہچاننے لگتے ہیں، اس بات کی مہارت حاصل ہوجاتی ہے کہ عوام سے کیا کہنا ہے، کب کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے۔ بس یہی مرحلہ دراصل امتحان کا ہے۔ سچے اور اچھے شاعر کو کیا کہنا ہے۔ سے زیادہ ’’کیا نہیں کہنا ہے‘‘ کا احساس اور تجربہ ہونا چاہیے۔
گویا جب تک اپنی نفی کرنے کا گر نہیں آتا دوسروں کے اثبات کا ہنر بھی نہیں آتا۔ سرچاہے کتنا ہی صحیح اور سریلا ہو شاعری میں سرکی اپنی جگہ ہے تو گر کی اپنی جگہ۔ جو لوگ ان دونوں فنوں میں مطابقت پیدا کرنے کی مشق بہم پہنچا لیتے ہیں وہ عوام و خواص دونوں کا دل جیت لیتے ہیں۔

شاعری کے حوالے سے سر اور گر دونوں کے ظاہر فراز نہ صرف رازداں ہیں بلکہ انہوںنے فن کے ساتھ اپنے خلوص، تخلیقیت کے ساتھ اپنے ذہنی رشتے اور طریقہ اظہار کے ساتھ اپنے سلیقے کے ذریعے شاعری کے جوہر اور مشاعروں کے ہنر میں ایک خاص طریقے کی تطبیق پیدا کرلی ہے جو خاصا مشکل کام ہے اور اگر فن میں خلوص، مزاج میں شرافت، ماحول کی تربیت اور ادبی نسب نامے میں نجابت نہ ہو تواس پل صراط سے گزرنا ممکن نہیں۔ طاہر فراز اس پل صراط سے آتے جاتے رہتے ہیں اوراس کی دونوں انتہائوں سے واقف ہیں۔

اس زاویے سے دیکھئے آئینہ حیات
جس زاویے سے میں نے لگایا ہے دھوپ میں

مشاعروں میں مشہور شاعروں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے فن اور زندگی دوندی کا عوامی ہوتے ہوتے عامی ہوجاتا ہے اور شاعری برائے نام رہ جاتی ہے (بات شاعری کے بارے میں ہورہی ہے اور مشاعروں میں سب شاعر کہاں ہوتے ہیں) مگر اس کلیے میں استثنیٰ کی مثالیں بھی کافی ہیں جس کی ایک روشن علامت طاہرفراز ہیں۔ مشاعروں میں سچ مچ کے شاعروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی ہے اور کلام میں بھی اچھے شعروں کی تعداد متعدبہ ہوتی ہے مگر عوامی مشاعروں میں اس تعداد اور معیار کا واضح احساس شاید اس لیے نہیں ہوتا کہ مشاعروں کا مجموعی ماحول اس کو متاثر کردیتا ہے مشاعروں سے زیادہ متشاعر اور سنانے والوں سے سے زیادہ کرتب باز جمع ہوجاتے ہیں، نقلی مال کی بہتات نے اصل کو نقل کی حد پر پہنچادیا ہے ورنہ گزشتہ کئی برسوں سے ادب عالیہ کے علم بردار بھی اچھی خاصی تعداد میں مشاعروں سے وابستہ نظر آنے لگے ہیں جو شاعری، مشاعروں اور سامعین کے لیے اچھی علامت ہے۔

طاہر فراز ان خوش نصیب شاعروں میں سے ہیں جنہیں عوامی مقبولیت کے ساتھ ادبی اعتبار بھی حاصل ہے۔ نئے نقادوں میں بہت اہم معتبر اور ذہین نقادحقانی القاسمی نے ان کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے۔

’’طاہرفراز کے شعری آہنگ اور لہجے میں جو سوز، مستی، والہانہ پن، بے نیازی اور جو تھوڑی سی قلندری دردمندی ہے۔ یہ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے… ہ شاعری تو تسخیر قلوب کا عجب نسخہ کیمیا ہے۔ یہ ہنر نادر شاہ درانی کو آتا تو وہ کا ہے کو قتل عام کراتا۔ ہٹلر ہلاکو شاعری کے اسرارورموز جانتے تو انسانی وجود کے ساتھ ہمارے ثقافتی آثار کو کیونکر منہدم و مسمار کراتے۔ یہ شاعری بھی عجب شہنشاہی ہے اور یہ انداز فاتحانہ تو خدا نے صرف لفظوں اور تخلیق کاروں کو ہی و دیعت کیا ہے کہ شبدوں کی ساحری سے شہر شہر، نگر نگراپنے زیر نگیں کرلیتے ہیں۔ طاہرفراز نے بھی اپنی شاعری سے بہت سے دلوں کو مسخر کیا ہے کہ اس شاعر میں قوت و تاثیرہی ایسی ہے کہ سبھی اس کے اسیر ہوجاتے ہیں۔

سفر میرا کبھی نا معتبر ہونے نہیں دیتا
سوا اپنے کسی کو ہم سفر ہونے نہیں دیتا

بڑھا دیتا ہے چپکے سے حوادث کی نئی کڑیاں
وہ میری داستاں کو مختصر ہونے نہیں دیتا

جب کبھی بدلنا وقت پر بولنا
مدتوں سوچنا مختصر بولنا

عمر بھر کو مجھے بے صدا کر گیا
ترا اک بار منہ پھیر کر بولنا

نظر بچا کے گزرتے ہو تو گزر جائو
میں آئینہ ہوں مری اپنی ذمہ داری ہے

دیوار اختلاف کی کمزور ہے اگر
آ دوسری بنائیں نئی قربتوں کے ساتھ
٭…٭…٭