ڈاکٹر راجیش ریڈی کاتعلق نا گپور سے ہے۔ وہ اس وقت ممبئی میں رہائش پزیر ہیں۔ ڈاکٹر راجیش ریڈی 22 جولائی 1952ء کو ناگپور (مہاراشٹر) انڈیا میں پیدا ہوئے اور آپ نے شاعری کا آغاز 1980 میں کیا۔ راجیش ریڈی صاحب نے 1985 سے مشاعروں میں جاناشروع کیا۔ راجیش ریڈی صاحب نے انڈیا کے علاوہ انگلینڈ، امریکا، دوبئی، ابوظہبی، بحرین، دوحہ اور ماریشس کی طرف کئی ادبی سفر کیے ہیں۔ شاعری میں آپ کا کوئی استاد نہیں ہے۔ پسندید شاعر جناب مرزا غالبؔ ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ جدا ہے مری نماز
اللہ جانتا ہے کہ کافر نہیں ہوں
یہ شعر اردو، ہندی کے مشہور معتبر شاعر راجیش ریڈی کا ہے جو ان کے تازہ مجموعہ ’’وجود‘‘ کے پہلے صفحہ پر درج ہے۔ راجیش ریڈی ان شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے شاعری میں گلے گلے ڈوب جانے کے بعد اردو باقاعدہ سیکھی ہے اور ہمارے ان کامیاب شاعروں اور نایاب دوستوں میں سے ہیں جن کا نامہ اعمال ابھی سے دائیں ہاتھ میں ہے۔
راجیش ریڈی کا تازہ مجموعہ کلام ’’وجود‘‘ ہم تک پہنچا تو اشعار کے تیور دیکھ کر ہمیں ان کے ساتھ گزاری ہوئی بہت سی شامیں یاد آگئیں۔ یادش بخیر: تقریباً تین دہائیاں پہلے جب ہم یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) سے پروگرام ایگزیکٹو (Pex) منتخب ہو کر آکاش وانی جے پور پہنچے تو جن لوگوں سے سب سے پہلے ملاقات ہوئی ان میں راجیش ریڈی بھی تھے۔ راجیش بھی ان دنوں آکاش وانی میں پروگرام ایزیکٹو تھے اور شعبہ موسیقی کے سربراہ تھے۔ وہ گرچہ اس وقت شاعری کے حوالہ سے اتنے مشہور نہ تھے جتنے ایک اعلیٰ درجہ کے براڈکاسٹر اور ڈرامہ نگار کے طور پر تھے۔ ہمیں یاد ہے، ان دنوں وہ گیت گوند کے ریڈیائی روپ میں مصروف تھے جس کی موسیقی بھی انہوں نے خود ہی ترتیب دی تھی۔ ان دنوں یہ آکاش وانی کا مقبول ترین پروگرام تھا اور پورے راجستھان میں اس کے چرچے تھے اور اس حوالہ سے راجیش ریڈی خوب جانے جاتے تھے۔ جے پور کے اسٹیج ڈرامہ میں بھی ان کا دخل تھا اور راجیش اس وقت بھی راجستھان کی فنی و ادبی دنیا میں اپنا مخصوص اعتبار رکھتے تھے۔ وہ گرچہ مہاراشٹر کے رہنے والے ہیں مگر ان کی زیادہ تربیت جے پور میں ہوئی اور وہیں سے انہوں نے اپنے کریئر اور شاعری دونوں کی شروعات بھی کی اور عروج بھی پایا۔ ان کی آواز شروع سے مترنم ہے جو آج مشاعروں اور کوی سمیلنوں میں ان کی اچھی شاعری کی ترسیل کا عوامی ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
راجیش ریڈی کی پرکشش شخصیت، ستھرے ادبی ذوق، سیکولر مزاج، عمدہ شاعری، خلوص اور اردو سے ان کی والہانہ وابستگی نے ہمیں ان کا قریب ترین دوست بنا دیا جس میں گزشتہ تیس برسوں میں اضافہ اور اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس تعلق میں نہ زمینی فاصلے حائل ہوئے اور نہ زمانی فاصلے۔ ہم ڈیڑھ دو سال جے پور رہ کر دہلی دور درشن میں آگئے۔ راجیش کئی شہروں سے ہوتے ہوئے بمبئی میں جا بسے مگر دوستی نے جو ’’اڑان‘‘ بھری تھی، تعلق نے جو ’’وجود‘‘ پایا تھا وہ ہنوز باقی ہے۔
آکاش وانی جے پور میں ہم ان دنوں ہفتہ واری اردو پروگرام کہکشاں پروڈیوس کیا کرتے تھے جسے میں خود پیش کرتا تھا اور زیادہ تر انٹرویوز وغیرہ خود ہی لیتا تھا۔ ریڈیو پرراجستھان میں یہ اردو کا واحد پروگرام تھا جس کی وجہ سے راجستھان کے سارے اردو ادیب و شاعر یہاں جمع رہتے تھے۔ راجیش ریڈی ان دنوں اپنی سادا، سادا غزلوں سے ادب میں سماج کی گہرائیوں اور بلندیوں کو سر کرنے کی کوشش میں تھے اور اکثر ایسی محفلوں کی جان ہوتے تھے جو محفلیں ہم جیسے ادب کے طالب علموں کی سائیکی کا حصہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ایسی ہی ایک تاریخی محفل یاد آرہی ہے، یہ محفل جے پور کے سی اسکیم علاقہ کے ایک فلیٹ میں جو ہماری اور ہمارے دوست آنند سیال کی مشترکہ قیام گاہ تھی، اچانک منعقد ہوئی تھی۔ یاد آتا ہے، اس دن مخمور سعیدی ٹونک جاتے ہوئے امیر آغا قزلباش کے ساتھ ہمارے پاس جے پور آئے تھے۔ میں نے ان دونوںسے کہکشاں پروگرا م کے لیے بات چیت ریکارڈ کی تھی۔ اتفاق سے کسی وجہ سے جناب شمیم جے پوری اور کیف بھوپالی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ راجیش ریڈی تو موجود ہی تھے، سو محفل تو جمنا ہی تھی۔ محفل جمی اور خوب جمی، ساری رات ادبی بحث و مباحثہ اور شاعری کے دور چلے۔ راجیش نے اس محفل میں جو کلام سنایا اس کے بہت سے اشعار زبان زد خاص و عام ہو چکے ہیں اور اب تو خیر ان کی بہت سی غزلیں دنیا کے مشہور گلوکاروں جگجیت سنگھ، پنکج اداس، بھوپندر سنگھ اور راجکمار وغیرہ کی آوازوں میں گھر گھر پہنچ چکی ہیں اور ان کی مشہور ترین غزل کا یہ شعر تو نئی غزل کی روایت کا حصہ بن چکا ہے ۔
مرے دل کے کسی کونے میں ایک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
گرچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اردو زبان و ادب کے پھلنے پھولنے میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کا بہت اہم اور بنیادی کردار ہے مگر اس بات کو دہرانا اور بار بار کہنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے تاکہ نئی نسلوں کو بھی اس بات کی تاریخی اہمیت کا اندازہ ہو سکے جس کا زندہ ثبوت میں راجیش ریڈی جیسے شاعر اور ادیب موجود ہیں۔
دیکھنا چاہوں جو خود کو کم سے کم اتنا تو ہو
آئینے میں گر میں نہیں کوئی مجھ جیسا تو ہو
راجیش ریڈی غزل کے ان عاشقوں میں سے ہیں جنہوں نے غزل کو صرف شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ باقاعدہ اردو رسم خط، زبان اور اس کے متعلقات سیکھ کر اس کا حق بھی ادا کیا اور کر رہے ہیں۔
جہاں بھی جائوں اک دنیا ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
میں تنہائی میں بھی بالکل اکیلا کیوں نہیں ہوتا
٭…٭…٭
کاش! یوں ہاتھ کبھی خزانے لگ جائیں
خود کو بھی کھوئیں نہیں تجھ کو بھی پانے لگ جائیں
٭…٭…٭
زندگانی کے تقاضے ہی تھے کچھ اتنے شدید
دن بڑا کرنا پڑا رات کو چھوٹا کر کے
’’وجود‘‘ راجیش ریڈی کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں ان کے پہلے مجموعے اڑان سے کوئی غزل شامل نہیں کی گئی ہے۔ ’’وجود‘‘ کی کسی غزل میں قطع نہیں ہے، یہ اہتمام شاید جان بوجھ کر کیا گیا ہے جس سے ایک خاص طرح کے تسلسل کا احساس ہوتا ہے اور اچھا لگتا ہے۔
راجیش کی شاعری داخلی جذبات، خارجی ماحول اور سماجی سروکار کا ایک ایسا متوازن اظہار ہے جس میں شعر کی معصومیت اور پختگی دونوں ہی جلوہ گر ہیں۔
کوئی ہمیں بھلا کے بھی جیتا ہے زندگی
ہم بھی کسی کی یاد میں مر تو نہیں گئے
افسوس کیا سروں سے جو دستاریں گر گئیں
یہ لوگ اسی پہ خوش ہیں کہ سر تو نہیں گئے
غزل میں غالباً بظاہر سب سے آسان اور بباطن سب سے مشکل کام سہل ممتنع کا کامیاب استعمال ہے۔ اگر شاعر کے مزاج میں صلابت اور جذبے میں سچائی کے ساتھ زبان پر قدرت نہ ہو تو ’’سہل ممتنع‘‘ صرف ’’سہل‘‘ یا ’’ممتنع‘‘ ہی رہ جاتا ہے۔ مگر راجیش ریڈی نے اس مشکل اور نازک کام کو بھی احساس کی صداقت اور فنی قدرت کے ساتھ سر کیا ہے۔ سادہ مزاجی، نرم خوئی، خلوص ان کے فطری مزاج کا حصہ ہے جو شعر میں ڈھلتا ہے تو احساس کی گہرائیوں تک اثر پذیر ہوتا ہے۔
ایک ہی شخص تو جہان میں ہے
خود کو بھی گر شمار کر لیا جائے
٭…٭…٭
وہی گھر میرے اندر رہ رہا تھا
میں جس گھر میں کبھی رہتا نہیں تھا
اکثر خوشی اور فخر کا احساس ہوتا ہے کہ ہم راجیش ریڈی جیسے شاعر کے صرف قاری و سامع ہی نہیں بلکہ ان کی شاعری کے وجود اور اڑان کے گواہوں میں سے بھی ہیں۔ راجیش ریڈی نے فن کی بہت سی غزلیں سر کر لی ہیں جن میں فن سے ان کے سچے رشتے اور زندگی سے ان کے حساس تعلق کا بڑا دخل ہے اس لیے کہ یہ سچے فنکار کی طرح ان کے لیے بھی زندگی ہے اور زندگی فن ہے۔ سو چلتے رہنا ہے۔
دکھ درد تو اوروں ہی جیسے ہیں مرے بھی
لیکن ہے مرے درد کا انداز بیاں اور
٭…٭…٭