مجسم شرافت، سراپا محبت کے پیکر بشری، جو اردو کائنات کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں سید اعجاز الدین شاہ ’’پاپولر میرٹھی‘‘ کے نام سے مقبول ہیں۔ انسانیت، شرافت اور خلوص کے عناصر ثلاثہ کی خوبیاں ان کی وضعداری کا نمایاں وصف ہے۔ لطف یہ کہ پاپولر میرٹھی کے یہاں یہ وضعداری یہ خلوص اور یہ انکساری، بلا تخصیص مذہب ومسلک، خوردوں، بزرگوں اور اپنے ہم مشربوں کے یہاں نظر آتی ہے! ان کی بے ریا اور بے لوث شخصیت نہ صرف اپنے حلیفوں بلکہ ادبی حریفوں کے معاملے میں بھی ایک جیسی ہے۔ ان کا دل گداختہ سب کے لیے جذبۂ خیرسگالی رکھتا ہے۔
پاپولر میرٹھی کو میں گزشتہ رُبع صدی سے جانتا ہوں۔ پاپولر میرٹھی اپنی مقبول، دلکش اور منفرد شاعری کے طفیل نہ صرف میرٹھ بلکہ ہندوستان اور اس کے باہر بھی ایک جانا پہنچانا نام بن چکا ہے۔ راقم السطور کا تقرر بحیثیت اُردو لکچرر میرٹھ یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں ۱۹۷۵ء ہوا تو میں سید اعجازالدین شاہ اور پاپولر میرٹھی، دونوں سے بخوبی واقف ہوا۔ پاپولر میرٹھی کو قریب سے دیکھنے پر ان کی مختلف خوابیدہ صلاحیتوں کا اندازہ بھی ہوا۔ یہ بحیثیت شاگرد بے حد سنجیدہ مہذب اور شائستہ رہے وہیں طنز یہ ومزاحیہ میدانِ شاعری میں بھی خوب سے خوب تر کی تلاش میں مصروف عمل رہے ہیں۔
سید اعجاز الدین شاہ تین حرفوں کامرکتب ہیں یعنی ان کی سرِشت میں سیدوں کی پاکیزگی وشرافت، اعجاز کے جادوئی اثر سے مقناطیسی کشش اور شاہ کی نسبت سے شاہوں جیسی صفات سے ان کی پوری شخصیت عبارت ہے اور اس پر مستزاد ان کا تخلص! پاپولرؔ میرٹھی کو میں نے کبھی مشتعل یا جذباتی ہوتے نہیں دیکھا یوں سمجھئے کہ جس طرح دودن میں شکر گھُل کر اُسے شیرینی عطا کرتی ہے اسی طرح پاپولرؔ میرٹھی کے پیکر میں خلوص کی چاشنی اور محبت کی خوشبو باہم شیروں شکر ہوگئی ہے۔
پاپولرؔ میرٹھی مکھن کی طرح ملائم ہیں۔ یہ شاخ ثمر کی طرح سرنگوں اور پھولوں سے لدی ٹہنی کی مانند سدا خمیدہ نظر آتے ہیں۔ مسکین چہرہ، حیران آنکھیں، چوڑی پیشانی، نیز دانتوں کی ساخت میں تبسم زیرِ لب کی کیفیت درشوخی وظرافت کی سحریت، سرُ وسفید رنگ۔ پاپولرؔ کی اپنی چیزیں ہیں۔ یہ بذاتِ خود جتنے ٹھنڈے ملائم اور معصوم صورت ہیں، ان کی ظریفانہ شاعری اتنی ہی گرم اور کرُکرُی ہے۔ ان کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری جنگل کی آگ کی طرح چہار دانگِ عالم میں پھیل گئی ہے۔ انہوں نے مشاعروں کی صدارت ہنوز نہیں کی ہے تاہم اکثر مشاعروں میں بَادشاہت ضرور کی ہے۔
پاپولرؔ میرٹھی کا خاندانی پسِ منظر بھی بہت شاندار ہے ان کے والد محترم سید نظام الدین شاہ، میرٹھ کے اہل ثروت اور ذی جاہ لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ دورِ فرنگ میں یہ سرکاری ٹھیکیدار تھے۔ ان کے نجی ساٹھ مکانات تھے۔ بیگم پُل میں چار دکانیں، نوچندی گرائونڈ میں عالیشان نظام پارک نیز لساڑی دروازے پر متعدد آراضیاں اور مکانات تھے مرحوم کو جہاں مکانات تعمیر کروانے کا بے پناہ شوق تھا وہیں ان کا ادبی ذوق بھی بہت بلند تھا۔ شعر وشاعری کے یہ رسیا تھے۔ اپنی رہائش گاہ پر عموماً مشاعروں کی باقاعدہ محفلیں منعقد کرتے تھے، خصوصاً نظام پارک میں وسیع پیمانے پر کُل ہند مُشاعرے کرواتے تھے۔ میرٹھ شہر کے چند مقتدر رُوسا، بھیّا جی، نادِر علی کے ساتھ ساتھ مرحوم کا بھی نام زبان زدِ خاص وعام تھا!
پاپولرؔ میرٹھی نے اوائلِ عمری سے ہی شعرا کی یہ محفلیں اپنے مکان پر آراستہ دیکھیں۔ عہد طفلی سے عہد شعور تک ان نجی مشاعروں میں پاپولر اپنے والد محترم کے ساتھ ہمیشہ شریک رہے۔ یہی ادبی نظمیں ان کی مزاحیہ شاعری کی اولیں درسگاہ ہیں۔ ان معنوں میں پاپولرؔ میرٹھی مادر زاد شاعر نہ سہی خانہ زاد شاعر ضرور کہے جاسکتے ہیں۔
پاپولرؔ میرٹھی کی شادی ۲۹ مارچ ۱۹۹۳ء سہارنیور میں ہوئی ان کی ’’نصف بہتر‘‘ کا نام سیدہ راشدہ ہے۔ پاپولرؔ دو پھول جیسے بچوں سید احمد شاہ اور سیدہ عاتکہ کے والد ہیں۔ پاپولرؔ میرٹھی کی ہمشیرہ اردو کے مشہور شاعر اسمٰعیل میرٹھی مرحوم کے نبیرہ مسمّی سید وزیر احمد رزّاتی سے منسوب ہیں، جو کہ کراچی کے گلشن کالج میں شعبۂ کامرس سے منسلک ہیں۔ سید وزیر احمد رزاتی کی ہمشیرہ بیگم روشؔ صدیقی ہیں گویا ’’اِیں خانۂِ تمام آفتاب اِست‘‘ والی کیفیت ہے۔ جس طرح آفتاب کی شعاعوں ماہتاب کی کرنوں شفق کی رنگینوں، بادِ نسیم کی اٹھکھیلیوں، گلاب کی عطر بیزیوں اور سمندر کی لہروں کو لفظی پیراہن میں مقید نہیں کیا جاسکتا اسی طرح پاپولرؔ میرٹھی کی شخصیت وسیرت کی تمام خوبیوں نیز ان کے محاسنِ شعری کو مکمل طور پر تحریری گرفت میں نہیں لایا جاسکتا، ہاں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے ایک وسیع جولان گاہ ہے جس میں یہ حسبِ توفیق اور حسبِ استعداد کمال حاصل کرسکتے ہیں۔
پاپولرؔ میرٹھی اپنے تخلص کا آپریشن کرتے ہوئے یوں نغمہ بار ہیں؎
پاپولرؔ میرا تخلص ہے یہی اعجاز ہے
میرا جو بھی شعر ہے دنیا میں سرفراز ہے
آپریشن خوب ہی مضمون کے کرتا ہوں میں
ذہن میرانوکِ نشتر کی طرح ممتاز ہے
پاپولرؔ میرٹھی کسی مخصوص طبقے کے شاعر نہیں ہیں، عوام ہوں یا خواص امرا ہوں یا غرباء، بوڑھے ہوں یا جوان، عورتیں ہوں یا مرد، یہ سب کی پسند کے مقبول شاعر ہیں۔ بالفاظِ دگر، یہ صاف میٹھے اور ٹھنڈے پانی کے بھرپور گلاس کی طرح ہیں جس سے ہر شخص کی پیاس بجھ سکتی ہے۔ پاپولرؔ میرٹھی کی مزاحیہ شاعری، پیروڈی اور تضمین نگاری مستقبل قریب میں ادب کا جزو بنے گی یا نہیں، ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمیں اس سے مضر نہں کہ یہ مشاعروں کے یقینا پاپولرؔ شاعر ہیں! جس مشاعرے میں یہ کلام سُنانے کھڑے ہوتے ہیں، وہ مشاعرہ ان کے نام لکھ دیا جاتا ہے! پاپولرؔ میرٹھی ہمیشہ عصری مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں اس لیے ان کی ہر بات کسی ماہرشکاری کی گولی کی طرح اپنے ’’ہدف‘‘
پر بھرپور وار کرتی ہے۔ سماج کے ناہموار خوب وزشت پر کچوکے لگانے اور سیاست دانوں کی سیاہ کاریوں کی دھجیاں اُڑانے نیز معاشی وادبی مسائل پر حرف گیری کرنے والا یہ نوجوان شاعر اپنے میدانِ ظرافت کا ایک اہم شاعر ہے۔ ان کے یہاں عصری سیاست کی بوالعجبی ملاحظہ ہو۔
کسی جاں میں پھنسے ہیں نر سمہارائو دیکھو
دُکھ رام بن گئے ہیں سکھ رام آئو دیکھو
انداز ان کا دیکھو ان کا سو بھائو دیکھو
پیتل بھی بک رہا ہے سونے کے بھائو دیکھو
انصاف کی ڈگر پہ بچوّں دکھائو چل کے
’’یہ دیش ہے تمہارا نیتا تم ہی ہو کل کے‘‘
(انصاف کی ڈگر)
عہدِ رواں کے لیڈر کتنے اہل اور باشعور ہیں، ان کی تعریف میں پاپولر میرٹھی یوں نغمہ بار ہیں۔
یہی ہیں کاغذی انڈوں کے بچے
یہ لیڈر جتنے ڈھالے جارہے ہیں
نہ اماں کوئی ان کی ہے نہ ابا
مشینوں سے نکالے جارہے ہیں
(لیڈر)
ظریفانہ شاعری کی یہ روایت خاصی قدیم ہے کہ کسی معروف شاعر کا ایک مصرع اُڑا کر اُس پر کوئی شعر یا رباعی سپردِ قلم کی جائے۔ اس ذیل میں ان کی یہ رُماعی ملاحظہ ہو۔
اس گرانی میں میرے ساتھ ہیں بارہ بچے
ٹھوکریں کھائے گا یہ قافلہ کیا میرے بعد
میری بیگم نے کبھی یہ نہیں سوچا آخر
’’کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد‘‘
یوں تو کسی بھی مزاح گو شاعر کے چہرے پر لکھا نہیں ہوتا کہ وہ مزاحیہ نگار ہے لیکن پاپولرؔ میرٹھی کا چہرہ ضرورت سے زیادہ بے ضرر معصوم اور شگفتہ ہے۔ سنجیدہ آدمی کو ایسا چہرہ مشکل سے نصیب ہوتا ہے۔ پاپولرؔ میرٹھی سامعین کی نفسیات، ان کی دلی کیفیات اور ان کی خواہشات کے بناض بھی ہیں وہ موقع ومحل کی مناسبت سے اپنی ظریفانہ شاعری کی زنبیل سے یکے بعد دیگرے شعری پھلجڑیوں، مزاحیہ پٹاخوں اور پیروڈی کے نشتروں سے سامعین کے قلب وذہن پر اس طرح یلغار کرتے ہیں کہ مشاعرہ گاہ میں قہقہوں کی بارش ہی ہونے لگتی ہے اور لطف یہ کہ پاپولرؔ میرٹھی شعر پڑھنے کے معاًبعد سکوت وجمود کاک مجسمہ بن جاتے ہیں! میرے نزدیک ان کی یہ معصوم ادا ادائے دلبری سے بڑھ کر سخنِ دلنوازی کی داد وتحسین کا وسیلہ بنتی ہے! پاپولرؔ میرٹھی کی بیشتر رباعیاں شہد کی طرح شیریں اور چنبیلی کے پھولوں کی طرح نرم ونازک ہیں۔ پاپولرؔ آدھا مصرعہ اپنا اور دوسرا کبھی میر تو کبھی غالب اور کبھی اپنے ہمعصر شاعر کا پڑھتے ہیں۔
یہ عہدرواں کے اردو طنزیہ ومزاحیہ نگار شاعروں کی کہکشاں میں الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ نظم، غزل، پیروڈی، رباعی اور قطعہ سب پر ان کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔ پاپولرؔ کی مذکورہ خصوصیات کے حامل یہ شعر دیکھیے۔
محبوب وعدہ کر کے بھی آیا نہ دوستو
کیا کیا نہ دیکھو ہم نے کیا اُس کے پیار میں
مُرغے چرا کے لائے تھے جو چار پاپولر
’’دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں‘‘
بے وفائوں کو بھی پابندِ وفا کہتے ہیں
سادہ دل ہوتا ہے جو اُس کو گدھا کہتے ہیں
آپ تنقید کا ہر گز نہ کریں کوئی خیال
’’ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو بُرا کہتے ہیں‘‘
ایک کنکٹے کا آج یہ اعلان عام ہے
نیتا ہیں ہم ہمارا تو ایثار کام ہے
نیتا کا دعویٰ سن کے میں یہ سوچنے لگا
قربانی کنکٹے کی تو یاروں حرام ہے
اکبرالہٰؔ آبادی کے سامنے انگریز اور انگریزی تہذیب کی تباہ کاریاں اور ہندوستانی عوام پر ظلم وستم کے واقعات تھے اس کے برخلاف پاپولرؔ میرٹھی کے سامنے کالے انگریز، ہندوستانی معاشرت ومعیشت کی ریاکاریاں اور یہاں کے سیاست دانوں کے منافقانہ اعمال وافکار ہیں۔ یہ ان سب کو ٹارگٹ بنا کر اپنی شاعری کے ذریعہ ان پر چاند ماری کرتے ہیں۔ ان کے قلم کو مصلحت مرعوبیت اور مراعات نے کسی مقام پر بھی افشائے راز اور حق وصداقت سے باز نہیں رکھا وہ جو مناسب سمجھتے ہیں بے محابا اور بے لاگ کہہ دیتے ہیں۔
اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر تیرے تو کم
رسوائیوں کا کیا میری دفتر بنے گا تو
بیٹے کے سر پہ دیکے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہوگیا ہے منسٹر بنے گا تو
کسی جلسے میں اک لیڈر نے یہ اعلان فرمایا
ہمارے منتری آنے کو ہیں بیدار ہوجائو
یکایک لائوڈ اسپیکر سے گونجا فلم کا نغمہ
وطن کی آبرو خطرے میں ہے ہوشیار ہوجائو
پاپولرؔ میرٹھی میری نگرانی میں ریسرچ کا مرحلہ سر کررہے ہیں اور ان کا موضوع تحقیق بھی طنز ومزاح سے متعلق ہے یہ میدان ان کا اپنا ہے۔ امید ہے کہ یہ جلد ہی طنزیہ ومزاحیہ شاعری کے ’’مردِ میدان‘‘ ہوجائیں گے! پاپولرؔ میرٹھی کی پیروڈی، طنزیہ اور ظریفانہ شاعری کا اسلوب اور فن عمر، وقت اور مشق کے ساتھ ساتھ بتدریج ترقی کرے گا اور وہ زیادہ بہتر طور پر اپنی ماہرانہ ضاعی اور جاودانہ خلاقی کا بھرپور اظہار کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ہنس کر گزار دے‘‘ قارئین کو بھی پسند خاطر ہوگا اور مجھے بھی اپنی محنت کا صلہ ملے گا۔ کیونکہ غالبؔ نے اپنے شاگر دتفتہؔ کے بارے میں صدیوں پہلے جو بات کہی تھی، وہ آج بھی حق بجانب ہے یعنی پاپولر میرٹھی کی شہرت ومقبولیت میں میری بھی ناموری پوشیدہ ہے۔
ڈاکٹر خالد حسین خاں (صدر شعبۂ اردو، میرٹھ یونیورسٹی میرٹھ)