تعارف مظفرؔ حنفی
دورِ جدیدکے غزل گو شعرا کا ایک اِجتہاد نہ جانے کیوں اب تک ہمارے سنجیدہ اہل ِادب کی تو جہ سے محروم ہے وہ یہ کہ شعرائے متقدمین کے ہاں غزل ایک خاص اسلوب اور طرز کی پابند نظر آتی ہے، جس کی روایت بھی خاصی مستحکم ہے مگر عصرِ جدید میں’تغزل‘ کے روایتی تصور اور اظہار و بیان سے جس طرح غزل کو الگ کرنے کی شعور ی کوشش کی گئی ہے وہ بہر حال توجہ طلب ہے بالخصوص غزل میں طنز کا نفوذ ،جیسے ہمارے دَور میں ہوا ہے وہ متقدمین کی غزل سے یکسر مخالف ہے۔
دور ِگزشتہ میں غزل کے ساتھ طنز و مزاح کی ایک صنف ہزل بھی عا م تھی لیکن جدید شعرا نے غزل اور ہزل کے فرق کو ختم کردِیا۔ ہم جسے ایک اجتہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اساتذہ ا س طرح کے اشعار کیا غزل میں قبول کر سکتے تھے۔ ؟
اُن کے مداح اِس زمانے میں
جیسے کتّے قصائی خانے میں
٭…٭…٭
آنسو بچا کے رکھیں گورنر، مئیر، وزیر
برسات میں گریں گی ہی دوچار بلڈنگیں
٭…٭…٭
کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح
گھر میں بھرے ہیں لوگ حوالات کی طرح
غزل میں طنز کی اس شمولیت کا ایک سبب عصرِ جدید کے تلخ و تند حالات و زندگی کو بھی یقینا بڑا دخل ہے۔غزل میں اس طرح کے تیکھے طنز کو ماضی قریب میں جس طرح شاد عارفی نے برتا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہر چند کہ اس ضمن میں ہم یگانہ چنگیزی کے طرزِ اظہار سے بھی صَرفِ نظر نہیں کر سکتے مگر شاد کو جو وصف حاصل ہے وہ اپنی شدت اور اسلوب کے سبب جداگانہ حیثیت کا حامل ہوگیا ہے۔ جس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ طنز کی تیزابیت کے باوجود شاد عارفی کے شعری چمن کی فصل جلی یا جھلسی نہیں بلکہ شعری شگفتگی اپنے محاسن کے ساتھ ہمارے دامنِ تو جہ کو آج بھی پکڑلیتی ہے۔ شاد عارفی کے اس شعری رویے کو اْن کے بعد کے شعرا میں فروغ تو ملا مگر جس طرح مظفر حنفی نے اس کو اپنا اسلوب بنایا وہ عمل بھی ہم جیسے ادب کے طالب علموں کی نظر میں اجتہادی کردار کا حامل ہے۔ مظفر حنفی اپنے لب و لہجے اور موضوعات کے سبب دور ِحاضر کے غزل گو شعرا کے جمِ غفیر میںنمایاں ہی نہیں بلکہ صاحبِ طرز شاعر کے منصب پر فائز ہیں۔ اس وقت یاد آتا ہے کہ تین دہائیوں قبل جب پاکستان سے آنے والے مشہور و ممتاز شاعرو ادیب مولانا انجم فوقی بدایونی(مرحوم) سے عصر حاضر کے ہندوستانی شعرا کے تعلق سے بات چھڑی تھی تو پاکستانی شعرا سے موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستان کے چند شعرا کا نام لیتے ہوئے ڈاکٹر مظفر حنفی کو خصوصیت سے یاد کیا تھا۔ بلکہ وہ جملہ توہم اب تک نہیں بھولے: ’’ پورے پاکستان کی بات تو جانے دِیجیے، صرف کراچی میں جو ممتاز شعرا ہیں ان کے ہاں جو فکر کی تازگی اور ندرتِ اظہار پائی جاتی ہے اگر اس کا یہاں (ہند) کے شعرا سے موازنہ کیا جائے تو میری نظر سے یہاں کے جو شعر اگزرے ہیں اُن میں زیب غوری، عرفان صدیقی، ندا فاضلی، اسد بدایونی جیسے چند شعرا ہی ہیں اور ان میں مظفر حنفی اپنے طرز و اسلوب کے سبب بہت واضح ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہندوستان کے یہ غزل گو شعرا پاکستانی شعرا سے کسی طور کم یا پیچھے نہیںہیں۔ میں ہندوستانی شعرا کے اس حلقے میں مظفر حنفی سے بڑا متاثر ہوا۔‘‘
اس حلقے کے شعرا میں مولانا انجم فوقی بدایونی نے ممبئی کے ایک مشہور اور اُردو کے معروف شاعر ار تضیٰ نشاط (بدایونی) کا نام بھی لیا تھا۔ آج جب مولانا انجم فوقی بدایونی کی یہ باتیں یاد آئیں تومظفر حنفی اور ارتضیٰ نشاط کے حوالے سے ایک بات یہ بھی ذہن میں اُبھری کہ ہندستان کے دو بڑے شہروں کے اِن دو شعرا کے ہاں ایک بڑی مماثلت موجود ہے اور وہ ہے طنز کا تیکھا پن۔
ہم نے اس تحریر کی ابتدا میں جو اشعار نقل کیے ہیں اُن میں آخری مطلع ارتضیٰ نشاط ہی کا ہے۔ ارتضیٰ نشاط کم از کم ممبئی کے شعرا میں اپنی اسی خصوصیت کے سبب ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کا یہ شعر بھی اپنا تذکرہ چاہتا ہے ۔ سب سے دلچسپ یہی غم ہے مِری بستی کا موت پسماندہ علاقے میں دوا لگتی ہے نشاط کے ہاں عصری سفاکی اور دور ِحاضر کی تلخی نے جس طرح اظہار کی راہ اپنائی ہے وہ ہماری غزل کی روایت میں یکسر اضافہ نہ سہی مگر موضوعات کی رنگارنگی اور حسن اظہار میںاپنی ایک نمایاں کشش ضرورت رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ ہم نے مظفر حنفی اور ارتضیٰ نشاط کے ہاں ایک مماثلت کی بات کی ہے یہ دونوں شعرا اپنی طبعی اور فکری عمر میں بھی بُعد نہیں رکھتے مگر مظفر حنفی کو اپنی پُر گوئی اور اپنے وفور ِفکرکے سبب سبقت حاصل ہے۔ ہمارے ہاں لفظ ’’بسیار‘‘ اچھے معنی میں نہیں لیا جاتا مگر مظفر حنفی کی کثرتِ شعری اس سے مستثنیٰ ہے۔ اُنہوں نے بہت کہا بھی اور یہ عمل اُسی وفور کے ساتھ آج بھی جاری ہے، بیشک زِندگی کا کوئی عمل استثنائی رعایت سے خالی نہیں ہوتا۔ ہمارے دَور کے اہلِ قلم میں مظفر حنفی کو ایک خصوص یہ بھی حاصل ہے کہ وہ ادب کے دیگر شعبوں میں بھی دخل ہی نہیں رکھتے بلکہ ان شعبوں میں بھی ان کی فتوحات کم نہیں جو دُنیا سے مخفی نہیں ہیں۔ مظفر حنفی اکابر ِ ادب کی ایک اورمستحسن روایت کے نہ صر ف امین ہیں بلکہ اس روایت کے فروغ میںبھی اُن کا کردار واضح ہے کہ وہ درس و تدریس کی اس زنجیرکی ایک کڑی ہیں جس میں یہ عمل پیشہ ہوتے ہوئے بھی پیشہ وری سے پاک ہے۔ ہم نے ابھی اُن کے شعری حوالے سے جس کثرت کا ذِکر کیا ہے اُس کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ وہ حسنِ معنی میںکم نہیں۔ مظفر حنفی ہندو پاک ہی نہیں تمام اُردو دُنیا کے اکثر رِسائل و جرائد میں چھپتے رہتے ہیں اور اُن کی کوئی غزل تکرار ِاشاعت کے عیب سے کسی طرح کوئی تعلق نہیں رکھتی اور ان کی ہرغزل اپنی زمین میں ایک خصوص کی حامل ہوتی ہے اور جس کی دوسری خوبی یہ بھی ہے کہ ایک سے زائد شعر ایسے ضرورملتے ہیں کہ جن کو پڑھتے وقت آپ کی نظر اور توجہ قیام نہ کرتی ہو۔ یہ بات کسی بھی طور معمولی نہیں ہے ورنہ تو ہمارے دَور کے شعری ادب میں کثرت تو یقینا عام ہے کہ مجموعے کے مجموعے پڑھتے چلے جائیے، محسوس ہوتاہے کہ اخبار پڑھ رہے ہیں جن میںکہیں آپ کی نظر ٹھہرتی نہیں۔ البتہ ان میں کچھ شعرا اور اُن کے مجموعۂ ہائے کلام ایسے ضرور ملتے ہیں جو ’’باز گوئی‘‘ میں ایک دوسرے سے سبقت لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں حضرت انجم فوقی پھر یاد آتے ہیں کہ ’’میاں ! شعرا میں اچھا شعر کہنے والے بھی مل ہی جاتے ہیں مگر ایسے کم اور بہت کم ملتے ہیں جو ’’اپنا شعر‘‘ بھی کہہ لیتے ہوں۔‘‘ ہمارے مظفر حنفی اس وصف کے بھی حامل ہیں اور اس دور میں جس میں شعر و ادب کا ذو ق معاشرے کے ’’خواص‘‘ میں بھی ختم ہو رہا ہو اور اکثر ’’عالِم‘‘ نرگسیت کے شکار ہوں۔ مظفر حنفی جیسا شاعر قابلِ احترام ہی نہیں قابلِ فخر بھی ہے کہ ابھی ہماری شعری دُنیا نیکوں سے خالی نہیں ہوئی۔
مظفر حنفی ہرچند کہ عمر طبعی کے تیسرے دور سے گزر رہے ہیں مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ اُن کی فکری اور اظہاری توانائی کہیں سے سال خوردہ یا کسی طرح کے ضعف میں مبتلا نہیں ہے۔ ہماری نئی نسل کو اس توانائی کے مرکز اور حسنِ اظہار کے منبع کو تلاش کرنا چاہیے جس سے مظفر حنفی نہ صرف مستفید ہوئے ہیں بلکہ اس دھارے کو اپنی فکر کی دھار سے آبدار بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ عمل دورِ گزشتہ میں بھی عام نہیں تھا شکر ہے کہ ہمارے زمانے میں اس روایت کی ایک زندہ جاوید تجسیم کانام مظفر حنفی ہے۔
ندیم صدیقی(ممبئی)