انور شعورؔ تعارف

انور شعور دور جدید کے معتبر شاعر ہیں۔ عام فہم اور سادہ شاعری کرنے کی وجہ سے ان کو سہلِ ممتنع کا شاعر سمجھا جانے لگا ہے۔ چھوٹی بحروں میں ان کے کئی ایک اشعار زبان زدِ عام ہیں۔ کراچی سے 2015 میں انور شعور کی ’’کلیاتِ انور شعور‘‘ شائع ہوئی، جس کو رنگ ادب پبلی کیشنز نے ہی شائع کیا۔ا س کلیات میں ان کے چار مجموعہ ہائے کلام اندوختہ، مشق سْخن، می رقصم اور دل کا کیا رنگ کروں شامل ہیں۔ انور شعور جدید غزل کے نمائندہ شعرا میں شمار ہوتے ہیں، جبکہ قطعہ نگاری بھی ان کی شہرت کا ایک بنیادی حوالہ ہے۔ ان کی شاعری میں شریک موضوعات انتہائی حساس نوعیت کے ہیں، جو انسان کے داخلی اور خارجی معاملات سے مکالمہ کرتے ہیں۔ رومانویت اور جمالیات کے نقوش ان کی شاعری میں واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آدمی، طلسم، انتظار، دھوکا، جستجو، شراب، شام، رات، غم، تلاش، زہر، صحبت، ہمدم، زنداں، صیاد، بدن، حیرت، سفر، مشقت جیسے موضوعات کی گہرائی سے ان کی شاعری لبریز ہے۔
یہ کلیات 912 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں 526 غزلیں اور 7 متفرق اشعار شامل ہیں۔ اس کلیات میں 1995 سے 2015 تک کے عرصے میں کی گئی شاعری کو شامل کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری پر مختلف ادبی شخصیات نے اظہار خیال بھی کیا، جن میں شکیل عادل زادہ، پروفیسر سحر انصاری، مشفق خواجہ، احمد ندیم قاسمی، قمر جمیل، احمد جاوید، محمود واجد، ڈاکٹر اسلم فرخی، جمیل الدین عالی، شاہ محمد مری، ظفر اقبال، فاطمہ حسن اور شاعر علی شاعر شامل ہیں۔ میر تقی میر اور ناصر کاظمی کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ پڑھنے والوں پر انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں۔
انور شعور دھیمے لہجے کے مالک ہیں، ان کی شاعری میں مدہوشی کی کیفیت اپنی سرمستی سے مہک رہی ہوتی ہے۔ غزل کے رومان پرور شاعر ہونے کے باوجود ان کی ایک جداگانہ شناخت قطعہ نگاری بھی ہے۔ زندگی کے روزمرہ کے موضوعات کو ایک قطعہ میں سمو دینے کا ہنر انہیں خوب خوب آتا ہے۔ یہ سماج اور شعر کے درمیان ایک مستند مقام پر فائز ہیں، یہ مرتبہ ہر ایک شاعر کے حصے میں نہیں آتا، لیکن انور شعور نے اپنی لگن اور سچائی سے اس کٹھن منزل کو حاصل کیا ہے۔ ان کے چھوٹی بحروں کے اشعار بہت مقبول ہیں، یہ اپنی ذات کی طرح شاعری میں بھی کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ ان کی کلیات سے چند منتخب اشعار؎

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

٭…٭…٭

تمہارا رِند پیاسا، یاد رکھنا
تمہاری میزبانی میں رہا ہے

٭…٭…٭

صاف گوئی صفت نہیں کوئی
ہم سے ہر شخص روٹھ جاتا ہے
روز آتا ہے قرض خوا ہ میرا
اور دروازہ کوٹ جاتا ہے
٭…٭…٭