ایسی کس میں ہے ادا ہے ہی نہیں از اسد اقبال

ایسی کس میں ہے ادا ہے ہی نہیں
کوئی ویسا دل رُبا ہے ہی نہیں

میرے جیسے لاکھ ہیں اُس پر نثار
اُس کے جیسا دوسرا ہے ہی نہیں

میرے گھر میں کیسے ہو گی روشنی
میرے گھر میں تو دِیا ہے ہی نہیں

راز کیا ہے آخرش میں کون ہوں
جب کوئی اُس کے سوا ہے ہی نہیں

خود شناسی جان لیوا ہے حُضور
آگہی کی تو دوا ہے ہی نہیں

سِلسِلہ تو روح کا ہے اصل میں
مسئلہ یہ جسم کا ہے ہی نہیں

بارہا ٹوٹا ہے پھر ٹوٹے اسد
دل میں اتنا حوصلہ ہے ہی نہیں

کیٹاگری میں : Poetry

اپنا تبصرہ بھیجیں