ہماری باہوں میں آکر بھی کیوں ہمیں سے گریز

ہماری باہوں میں آکر بھی کیوں ہمیں سے گریز
سپردگی میں کبھی تو کرو نہیں سے گریز

میں داستان میں اس کی جہاں جہاں بھی رہا
سنا رہا ہے وہ کرکے وہیں وہیں سے گریز

تمام عمر ہمیں اس مکاں میں رہنا پڑا
وہ جس مکان کو ہر پل رہا مکیں سے گریز

ملا کے ہاتھ ہی کیوں رک گئے گلے بھی ملو
بنے ہو دوست تو پھر کیوں ہو آستیں سے گریز

نہ کھلتے راز کبھی کائنات کے ہم پر
ہماری جستجو کرتی نہ گر یقیں سے گریز

فلک سے نکلا تو رستے میں پڑ گئی یہ زمیں
میں چاہ کر بھی نہ کر پایا اس زمیں سے گریز

اپنا تبصرہ بھیجیں