میں نہ کہتا تھا کہ شہروں میں نہ جا یار مرے

میں نہ کہتا تھا کہ شہروں میں نہ جا یار مرے
سوندھی مٹی ہی میں ہوتی ہے وفا یار مرے

کوئی ٹوٹے ہوئے خوابوں سے کہاں ملتا ہے
ہر جگہ درد کا بستر نہ لگا یار مرے

سلسلہ پھر سے جڑا ہے تو جڑا رہنے دے
دل کے رشتوں کو تماشہ نہ بنا یار مرے

اپنی چاہت کے شب و روز مکمل کر لے
جا یہ سورج بھی ترے نام کیا یار مرے

تجھ سے ملتا ہوں تو رشتہ کوئی یاد آتا ہے
سلسلہ مجھ سے زیادہ نہ بڑھا یار مرے

ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ رہا ہے مجھ میں
چھوڑ کے تو مجھے اس وقت نہ جا یار مرے

خوش نصیبی سے یہ ساعت ترے ہاتھ آئی ہے
آسماں جھکنے لگا ہاتھ بڑھا یار مرے

اپنا تبصرہ بھیجیں