کوزے بنانے والے کو عجلت عجیب تھی
پورے نہیں بنائے تھے سارے بنائے تھے
پھر یوں ہوا کہ اس کی زباں کاٹ دی گئی
وہ جس نے گفتگو کے اشارے بنائے تھے
یہ مجھے نیند میں چلنے کی جو بیماری ہے
مجھ کو اک خواب سرا اپنی طرف کھینچتی ہے
لاش پٹڑی پہ پڑی دیکھی ہے جب سے، تب سے
ریل گاڑی کی صدا اپنی طرف کھینچتی ہے
میں آپ اپنی موت کی تیاریوں میں ہوں
میرے خلاف آپ کی سازش فضول ہے
٭…٭…٭
جدھر بھی دیکھیے اک راستہ بنا ہوا ہے
سفر ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے
میں کیا کروں مرا گوشہ نشین ہونا بھی
پڑوسیوں کے لیے واقعہ بنا ہوا ہے
شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں
وہی بھلا ہے جو بے ساختہ بنا ہوا ہے
٭…٭…٭
یہ کس بلندی پہ لاکر کھڑا کیا ہے مجھے
کہ تھک گیا ہوں توازن سنبھالتا ہوا میں
٭…٭…٭
رنگ اپنے اپنے وقت پہ کھلتے ہیں آنکھ پر
اول فریب ہے کوئی ثانی فریب ہے
اس گھومتی زمیں پہ دوبارہ ملیں گے ہم
ہجرت فرار نقل مکانی فریب ہے
فنا پذیر کو یوں جاوداں سمجھتا ہوں
میں رفتگاں کو بھی آئندگاں سمجھتا ہوں
چراغ میں بھی رہا ہوں، سو اے چراغِ سیاہ
سنے بغیر تری داستاں سمجھتا ہوں
٭…٭…٭
جو زخم ہیں نظر انداز اندمال میں ہیں
بہت خیال ہے جس کا وہی نہیں بھرتا
مرے نقوش مرادائمی تعارف ہیں
میں کوئی رنگ کہیں عارضی نہیں بھرتا
٭…٭…٭
یاد بکھری ہے کہ سامان تمہارا مجھ میں
لگ رہا ہے کہ تم آئو گے دوبارہ مجھ میں
تھے بھٹکتے ہوئے کچھ لوگ مرے اندر بھی
تو نے کیوں کوئی پیمبر نہ اتارا مجھ میں
٭…٭…٭
مرے گناہ کی مجھ کو سزا نہیں دیتا
مرا خدا کہیں ناراض تو نہیں مجھ سے
میں سانس تک نہیں لیتا پرائی خوشبو میں
جھجھک رہی ہے یونہی شاخِ یاسمیں مجھ سے
٭…٭…٭
تیری ضد نے تجھے تالاب بنا رکھا ہے
تو مرے پائوں بھگوتا تو سمندر ہوتا
کر گئی جھیل مجھے امن پسندی میری
بستیاں میں بھی ڈبوتا تو سمندر ہوتا
٭…٭…٭
انہیں جگہ نہیں دیتے یہ سامنے والے
کئی ستارے پسِ آسماں پڑے ہوئے ہیں
مجھے تو صلح کی صورت نظر نہیں آتی
کہ خیر خواہ بہت درمیاں پڑے ہوئے ہیں
٭…٭…٭
حرام ہے عملِ خودکشی مگر مالک
وہ کیا کرے جسے مجبور کردیا جائے
جسے بھی دینی ہو تنہائیوں کی موت اسے
ہمارے شہر میں مشہور کردیا جائے
٭…٭…٭
انہیں بتائو کہ لہریں جدا نہیں ہوتیں
یہ کون لوگ ہیں پانی پہ وار کرتے ہوئے
٭…٭…٭
آرزو ترک نہ کرتا تو یہ گھر کٹ جاتا
میں اگر شاخ بچاتا تو شجر کٹ جاتا