صبح اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں
اپنی آواز کو تصویر بنائے ہوئے ہیں
اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ
کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں
ہم نہیں اتنے تہی چشم کہ رو بھی نہ سکیں
چند آنسو ابھی آنکھوں میں بچائے ہوئے ہیں
ہم نے خود اپنی عدالت سے سزا پائی ہے
زخم جتنے بھی ہیں اپنے ہی کمائے ہوئے ہیں
اے خدا بھیج دے امید کی اک تازہ کرن
ہم سر دست دعا ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں
ہر نیا لمحہ ہمیں روند کے جاتا ہے کہ ہم
اپنی مٹھی میں گیا وقت چھپائے ہوئے ہیں
ایک مدت ہوئی تم آئے نہ پیغام کوئی
پھر بھی کچھ یوں ہے کہ ہم آس لگائے ہوئے ہیں