اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
داغ ؔ دہلوی کا یہ شعر اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے،جو نہ صرف اردو زبان کا روشن ماضی بتا رہا ہے بلکہ اس کے درخشاں مستقبل کا ضامن ہے،یہزبان اپنے اندر تمام جہان کی شیرینی سموئے ایک ایسی واحد زبان ہے جو پل بھر میں آپ کو اپنا گرویدہ کر سکتی ہے،اس لیے آج اردو زبان برصغیر سے نکل کر دنیا بھر میں دستک دے رہی ہے،اس کے چاہنے والے نا صرف اردو کو فروغ دیتے ہیں بلکہ اس کی ترویج واشاعت میں اپنا ہر ممکن تعاون پیش کرتے ہیں،آج اردو زبان نا صرف بحرین، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں اپنی شناخت قائم کر چکی ہے بلکہ یورپ کے مختلف شہروں میں اس کے مداح ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں،
اردو کے فروغ کے لیے اہل خیر حضرات کی جانب سے چلائی جانے والی مختلف تنظیموں کے ذریعے مشاعرے اور شعری نشستیں منعقد کی جاتی ہیں، ان میں ایک نمایاں نام بحرین میں مقیم جناب شکیل احمد صبرحدی کی جانب سے قائم کردہ تنظیم مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغ اردو ہے، جو گزشتہ کئی برسوں سے علم و ادب کے سلسلے کی سب سے متحرک تنظیم تسلیم کی جاتی ہے،مجلسِ فخرِ بحرین ہر سال کسی اردو کے نامور استاد شاعر کی یاد میں عالمی مشاعرہ منعقد کرتی ہے، اور اس سے پہلے پورے سال اسی سلسلے کی طرحی شعری نشستوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ مجلے و سیمینار اور کتابوں کی اشاعت کاکام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اب تک پانچ اردو کے اہم شعراء کے نام سے مشاعرے ' شعری نشستیں سیمینار اور کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کیا جا چکا ہے جن میں شہریارؔ ، فراقؔ ، عرفان صدیقیؔ ، آنند نرائن ملاؔ اور خلیل الرحمن اعظمیؔ ہیں،رواں برس مجلس نے اپنے جشن کے لیے آزادی کے بیباک شاعر پنڈت برج نارائن چکبست کے نام کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے کی ایک نشست تو پہلے ہی ہو چکی جب کہ گزشتہ دنوں مجلسِ فخرِ بحرین کی جانب سے منعقد دوسری طرحی نشست بیادِ پنڈت برج نارائن چکبست بنام ''ایک شام اجمل سراج کے نام اور شعری طرحی نشست'' اپنے خوبصورت اختتام کو پہنچی، جس میں بحرین کا اردو داں طبقہ پوری طرح سے شریک رہا۔ بحرین کے مقامی شعراء کیساتھ ساتھ بیرونی ممالک کے شعراء کا جوش دیدنی تھا۔ محترم اجمل سراج نے اس یادگاری نشست کے وقار میں اضافہ کیا محترم اجمل سراج کا شمار دنیا کے نامور شعراء میں کیا جاتا ہے محترم اجمل سراج صاحب نے منتظمین کی حوصلہ افزائی و ستائش کرتے ہوئے کہا کی اردو کی خدمت اس سے اچھے انداز میں ہو ہی نہیں سکتی انہوں نے مجلسِ فخرِ بحرین کے بانی محترم شکیل احمد صبرحدی کو اس گرانقدر خدمت کے لیے مبارکباد پیش کی، وہیں دوسری جانب برطانیہ سے تشریف لانے والی ہماری مہمان محترمہ نور الصباح سیمیں برلاس صاحبہ کی موجودگی ہمارے لیے باعثِ فخر رہی، محترمہ برلاس صاحبہ مہمانِ اعزازی کے طور پر نشست کا حصہ بنیں ان کے علاوہ ممتاز عالم دین، کہنہ مشق صاحبِ قلم، نکتہ سنج محقق اور باکمال شخصیت استاد محترم جناب شعیب نگرامی صاحب کی صدارت نے اس نشست کو اور معتبر بنا دیا، روایت کے مطابق دنیا کے مختلف مقامات سے شعراء نے اپنے کلام بھیج کر محفل کی آبرو بڑھائی وہیں مقامی شعراء نے اپنے خوبصورت کلام سے محفل کے حسن کو دو بالا کر دیا، نظامت کے فرائض محترم خرم عباسی نے ادا کئے، جبکہ استقبالیہ کلمات مجلس کے بانی اور سرپرست جناب شکیل احمد صبرحدی صاحب نے پیش کیے۔
نشست کے لیے پنڈت برج نرائن چکبست کے دو مصرعوں کی تجویز تھی تاکہ شعراء حضرات ایک مصرعء طرح یا دونوں مصرعء طرح پر کلام کہہ سکیں۔
مصرعہ طرح
گُل ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں
مصرعہ طرح
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو کے مشاعروں میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ بیرونِ بحرین سے شعرائے کرام اپنی طرحی غزلیں ارسال کر کے مشاعرے میں شرکت کرتے ہیں۔ اس بار ای میل سے جو غزلیں موصول ہوئیں۔ ان میں محترم ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی (ہندوستان)، محترم عامر قدوائی (ہندوستان)، محترم مظفر احمد مظفر (برطانیہ)، محترمہ سیدہ نفیس بانو شمع (ہندوستان)، محترم عالم غازیپوری (ہندوستان)، محترم شاداب اعظمی (ہندوستان)، محترم اطہر عباسی (جدّہ)، محترم عباس تابش (پاکستان)،خورشید علیگ(ہندوستان) محترمہ سیدہ زینب سروری (پاکستان)، محترم عبد الحکیم ناصف (پاکستان)، محترم عا طف چودھری (سعودی عرب)، محترم قیصر وجدی (پاکستان) اور نسیم سحر (پاکستان) کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ جنہیں نظامت کے دوران مشاعرے میں پیش کیا گیا۔ ای میل سے موصول غزلوں سے منتخب اشعار
عباس تابش
شاخ شکست شب نہ بہشت گماں کے ہیں
دل کی منڈیر پر یہ پرندے کہاں کے ہیں
گھر واپسی کی لمبی مسافت کے باوجود
وہ آنکھ پوچھتی ہے ارادے کہاں کے ہیں
عبد الحکیم ناصف
بیٹے تو بیویوں کے ہیں یا اپنی ماں کے ہیں
ہم ان کے باوا جان ہیں اور درمیاں کے ہیں
لگتا ہے پٹ رہا ہے یقیناًمیاں کوئی
انداز ہو بہو مرے طرز فغاں کے ہیں
قیصر وجدی
دنیا کو کیا بتائیں کہ ہم کس جگہ کے ہیں
مرشد! نگاہ کر، کہ تیرے آستاں کے ہیں
اے نا مراد عشق تجھے کچھ خبر بھی ہے
سینے پہ تیرے تیر یہ کس کی کماں کے ہیں
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
جھونکے ہماری سمت ہی بادِ خزاں کے ہیں
ہم جیسے پھول اور کسی گلستاں کے ہیں
گلشن کا اپنے حال ہے اب کچھ دنوں سے یہ
’’گُل ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں‘‘
عامر قدوائی
تحفے یہ سب حضور کسی مہرباں کے ہیں
چہرے پہ اب نقوش جو سوز نہاں کے ہیں
ٹوٹے ہوئے یہ پھول کسی گلستاں کے ہیں
’’گُل ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں‘‘
اطہرعباسی ۔ جدّہ
سب امتحان یوں تو دلِ ناتواں کے ہیں
جو دن گزر رہے ہیں وہی امتحاں کے ہیں
میخانۂ حیات کی رنگینیاں ہیں کیا؟
قصّے تمام دوستو پیرِ مغاں کے ہیں
خورشید علیگ
یہ زخم میری پشت پہ کس مہربان کے ہیں
جو تیر مجھ پہ آئے ہیں وہ کس کماں کے ہیں
برسوں سے لوگ اس کو مٹاتے رہے ہیں پر
ہر سمت شور آج بھی اردو زباں کے ہیں
سیدہ زینب سروری
’گُل ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں‘‘
دراصل ہم رلائے ہوے آسمان کے ہیں
محفل میں آ کے راز سبھی فاش کر دیے
یہ زخم تو لگائے ہوئے مہرباں کے ہیں
مظفر احمد مظفرؔ (انگلینڈ)
گر چہ حریف ہم بھی غم دو جہاں کے ہیں
’’گُل ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں‘‘
اب ہم سے پوچھتی ہے شب غم کی تیرگی
کتنے دراز مرحلے اس امتحاں کے ہیں
سیدہ نفیس بانو
افسردہ اور اداس سبھی گلستان کے ہیں
’’گُل ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں‘‘
پلکوں سے چومتی ہوں میں ہر لفظ شعر کے
بکھرے ہوئے یہ موتی مری داستاں کے ہیں
عاطف چودھری
ہم سنگِ رہگزر نہ کسی آستاں کے ہیں
ٹھوکر کوئی بتائے گی آخر کہاں کے ہیں
وہ پھول ہیں جو آنکھ سے اوجھل کہیں کھلے
ہم رنگ نو بہار نہ صحنِ خزاں کے ہیں
عالم غازیپوری
ہم سے نہ پوچھ کون ہیں اور ہم، کہاں کے ہیں
ہم بھی اسی زمین اسی آسماں کے ہیں
اے زندگی کبھی تو مجھے کھل کی تو بتا
کردار کیسے کیسے تری داستاں کی ہیں
نسیم سحر
دیتے تو ہیں دکھائی یہاں،پر وہاں کے ہیں
ہم اصل میں زمیں کے نہیں آسماں کے ہیں
منسوب ہو گئے ہیں جو فرہادو قیس سے
وہ سارے اقتباس مری داستاں کے ہیں
مرزا غیا ث الدین بیگ
رہبر تھے ہم زماں کے گداگر جہاں کے ہیں
گل ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں
یہ ایک مشت خاک کہاں تک الم سہے
کلفت زمین کی ہے ستم آسماں کے ہیں
شاداب عمران اعظمی
نبھتی نہیں ہے گل سے مگر گلستاں کے ہیں
عاجز ہیں زندگی سے مگر اس جہاں کے ہیں
ہم جیسے مسکرا کے جو ملتے رہے ہیں لوگ
سینوں میں درد رکھے ہوئے دو جہاں کے ہیں
نشست میں جناب اجمل سراج، محترمہ نور الصباح سیمیں برلاس، جناب رخسار ناظم آبادی، جناب طاہر عظیم، جناب ریاض شاہد، جناب اقبال طارق، جناب عدنان تنہا، جناب فیضی اعظمی، جناب سعید سعدی اور جناب اسد اقبال نیعمدہ طرحی غزلیں پیش کیں شعراء کی بہترین شاعری کو سامعین نے بہت دلجمعی سے سُنا اور ایک ایک شعر پر خوب داد دی۔
تصاویری جھلکیاں
منتخب اشعار
اجمل سراج
تجھ سے ہی سارے سلسلے نام و نشاں کے ہیں
تو ہی اگر نہیں ہے تو پھر ہم کہاں کے ہیں
واعظ کے وعظ اور نصیحت سے اک طرف
کچھ لوگ انتظار میں دل کی ازاں کے ہیں
سیمیں برلاس
دیکھیں زرا جو حوصلے برقِ تپاں کے ہیں
دو چار تنکے اب بھی میرے آ شیاں کے ہیں
پژمُردہ حال رنگُ مہک سے ہیں بے نیاز
گُل ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں
رخسار ناظم آبادی
بخشے ہوئے یہ زخم مرے مہرباں کے ہیں
میں جانتا ہوں تیر اسی کی کماں کے ہیں
جس کو نہ مل سکی ہے ابھی منزل مراد
بچھڑے ہوئے تو ہم بھی اسی کارواں کے ہیں
ریاض شاہد
یہ زخم زخم لفظ مری داستاں کے ہیں
قصے مری حیات کے سب امتحاں کے ہیں
ظاہر میں اور کچھ ہیں تو باطن میں اور کچھ
یہ لوگ کس ضمیر کے اور کس جہاں کے ہیں
اقبال طارق
تُوکس کی بارگاہ میں کل سجدہ ریزتھا
سجدے تری جبین پہ کس آستاں کے ہیں
کل جس نے فصلِ سنگ اگائی تھی شہر میں
اب زخم زخم ہاتھ اسی مہرباں کے ہیں
عدنان تنہا
''کیسی یقیں کی دھوپ ہے سائے گماں کے ہیں''
گل ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں
یوں مجھ کو دیکھیے نہ حقارت کی آنکھ سے
سائے تلے ہم ایک ہی جب سائباں کے ہیں
فیضیؔ اعظمی
کیا پوچھتے ہو ہم سے میاں ہم کہاں کے ہیں
ہم لوگ بھی نکالے ہوئے آسماں کے ہیں
فیضیؔ ہمارے کرب کا عا لم نہ پوچھئے
گل ہیں مگر ستائے ہوئے باغبان کے ہیں
اسد اقبال
مری تو جاں لیے جاتی ہے یہ سادہ دِلی اُن کی
وہ جب معصومیت سے پوچھتے ہیں یہ ہوا کیا ہے
بہت سے زخم کھائے ہیں اسد اس راہ میں ہم نے
ہمیں معلوم ہے آخر محبت کا صلہ کیا ہے
سعید سعدی
قصے ہزار دردِ دلِ ناتواں کے ہیں
''گلُ ہیں مگر ستائے ہوئے باغباں کے ہیں''
فکرِ معاش میں یوں گزاری ہے زندگی
اشعار میں خیال بھی سودوزیاں کے ہیں