شام کے وقت چراغوں سی جلائی ہوئی میں
گھپ اندھیروں کی منڈیروں پہ سجائی ہوئی میں
دیکھنے والوں کی نظروں کو لگوں سادہ ورق
تیری تحریر میں ہوں ایسے چھپائی ہوئی میں
خاک کر کے مجھے صحرا میں اڑانے والے
دیکھ رقصاں ہوں سردشت اڑائی ہوئی میں
کیا اندھیروں کی حفاظت کے لیے رکھی ہوں
اپنی دہلیز پہ خود آپ جلائی ہوئی میں
لوگ افسانہ سمجھ کر مجھے سنتے ہی رہے
درحقیقت ہوں حقیقت سے بنائی ہوئی میں
میری آنکھوں میں سمایا ہوا کوئی چہرا
اور اس چہرے کی آنکھوں میں سمائی ہوئی میں
کتنی حیران ہے دنیا کے مقدر کی نہیں
اپنی تدبیر کے ہاتھوں ہوں بنائی ہوئی میں
میرے انداز پہ تا دیر علینا وہ ہنسا
ذکر میں اس کے تھی یوں خود کو بھلائی ہوئی میں
٭…٭…٭