زمین آنکھیں مسل رہی تھی، ہوا کا کوئی نشاں نہیں تھا
تمام سمتیں سلگ رہی تھیں مگر کہیں بھی دھواں نہیں تھا
چراغ کی تھرتھراتی لو میں، ہر اوس قطرے میں، ہر کرن میں
تمہاری آنکھیں کہاں نہیں تھیں، تمہارا چہرہ کہاں نہیں تھا
دیارِ ہجراں کی وحشتوں کاطلسم ٹوٹا تو میں نے جانا
ہر ایک دستک ہواؤں میں تھی، مکیں نہیں تھے ، مکاں نہیں تھا
وہ ایک لمحہ تھا سرخوشی کا، فسوں تھادریافت کے سفر کا
جو ریگِ جاں میں چمک رہا تھا ستارہ ٔ آسماں نہیں تھا
وہ کیسا موسم تھا، زرد شاخوں سے سبزبیلیں لپٹ رہی تھیں
وہ سبز بیلیں کہ جن کی آنکھوں میں کوئی خوفِ خزاں نہیں تھا
یگوں کے رتھ پر سوار گہری خموشیوں نے بتایا مجھ کو
کہ تم سے پہلے بھی اور پہلے بھی بس یقیں تھا گماں نہیں تھا
اسی زمیں کی تہوں میں بہتا تھا میٹھے پانی کا ایک چشمہ
سراب زادوں کی تشنگی کو نبیلؔ اس کا گماں نہیں تھا
—-